لیکھنی ناول-22-Oct-2023
تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر5
آج دعا نے اپنی پسند کا ڈریس پہنا تھا اور اپنی مرضی سے تیار تھی تمہاری پسند بھی بُری نہیں ہے مصطفیٰ نے تعریف نہیں کی ۔مگر اتنا کہہ کر بتایا ضرور تھا کہ وہ اچھی لگ رہی ہے ۔ کم از کم آپ کی پسند سے تو اچھی ہی ہے ۔ نخرے مت دکھاؤ چلو چھوڑدوں ۔ کیا ۔۔؟آج بھی آپ چھوڑ نے جائیں گے مجھے بابا نے آپ کو میرا ڈرائیور رکھ لیا ہے کیا ۔۔ انداز مزاق اڑانے والا تھا ۔ نہیں لیکن میں اپنی ملکیت کی ذمہ داری خود اٹھانا پسند کرتا ہوں ۔ کیا مطلب ۔۔؟جب سے مصطفی آیا تھا وہ اس سے اسی طرح کے عجیب و غریب باتیں کرتا تھا۔جو دعا کےسرکے اوپر سے نکل جاتی۔ کتنی بار کہا ہے تم سے ہر بات میں مطلب مت پوچھا کرو بابا آ جائیں گے تو سارے مطلب سمجھ میں آجائیں گے تمہیں ۔ اب چلو دیر ہو رہی ہے اور لینے میں ہی آؤں گا صرف ایک بار بلاؤں تو باہر آ جانا۔بلکہ میں تمہارے فون پر فون کروں گا ۔مصطفیٰ نے بتایا ۔ اوکے ڈرائیور اس نے جان بوجھ کر ڈرائیور پر زور دیتے ہوئے کہا ۔ لیکن اس کی بات کا مصطفٰی نے بُرا نہ منایا اوکے میڈم آپ کا ڈرائیور وقت پر پہنچ جائے گا ۔ اس دن کے بعد مصطفی اس سے فرینگ ہونے کی کوشش کر رہا تھا ۔ یقیننا اس سے دوستی کرنا چاہتا تھا ایسا دعا کو لگ رہا تھا ۔ لیکن اب دعا اس سے دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اب دعا کو نہ تو اچھا لگتا تھا اور نہ ہی اسے ایک کزن دوست چاہیے تھا ۔اس نے سوچ لیا تھا اس کے پاس جو فرینڈ ہیں وہی اچھی ہیں اسے اور نہیں چاہیے حاض کرمصطفیٰ جیسا تو بالکل بھی نہیں ۔ اسے مصطفیٰ سے چڑ ہو گئی تھی اس کا ہر بات پہ حکم چلانا اپنی ہر بات منوانا دعا کو بالکل پسند نہ تھا ۔ یہاں تک کہ اسے مصطفیٰ سے بات کرنا اور اسے دیکھنا تک نہ پسند تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج رات مہندی کی رسم تھی اسی لیے دعا نے مصطفٰی کو دیر سے آنے کے لیے کہا تھا لیکن آٹھ بجے ہی اسے باہر سے بلاوا آ گیا غصے سے اٹھ کر وہ باہر چلی آئی اسے مصطفی کو واپس بھیجنا تھا ۔ وہ باہر آئی اور مصطفی کو ڈھونڈنے لگی جب ایک چھوٹی سی بچی اس کے قریب آئی ۔ باجی آپ کو پارکنگ ایریا کے پیچھے کی سائڈ پر کوئی مصطفی بالا رہے ہیں ۔ حد ہے انہیں تو یہاں آنا چاہیے تھا اب اتنی دور میں اکیلی کیسے جاؤں گی۔۔ سوچتے ہوئے وہ پارکنگ کی دوسری سائیڈ جانے لگی ۔ جو گھر سے کافی فاصلے پر بنی ہوئی تھی ۔ یہاں پر پہنچی تو اسی دو گاڑیاں اور کچھ لوگ نظر آئے شکر ہے میں یہاں اکیلی نہیں ہوں وہ آگے بڑھ گئی ۔ آگے دور دورتک مصطفیٰ کی گاڑی کہیں نہیں تھی ۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ لوگ جن کی وجہ سے اس کا ڈر ذرا کم ہوا تھا ۔ وہ اسے اپنے گھیرے میں لے رہے ہیں کچھ ہی دیر میں وہ سب لوگ اس سے کچھ فاصلے پر آگے پیچھے کھڑے تھے ۔ کچھ بولنے کی بجائے واپس پیچھے کی طرف جانے لگی ۔ لیکن وہ لوگ بھی اس کے پیچھے آنے لگے ۔ اس نے بھاگنے میں بہتری جانی ۔وہ لوگ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگے ۔ دعاسمجھ چکی تھی کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں پھنسنے والی ہے ۔ اسےمصطفیٰ پہ غصہ آ رہا تھا جیسے یہاں بلا کر خود نجانے کہاں چلا گیا تھا بھاگتے بھاگتے اس کی ہائی ہیل دھوکا دے کر ٹوٹ گئی ۔ لیکن اس سے پہلے کے وہ گرتی ۔کسی کی مضبوط باہوں نے اسے سہارا دے دیا ۔ نظریں اٹھا کر دیکھا تو شکر کا کلمہ پڑھا اسے دیکھ کر وہ سب لوگ پیچھے کی طرف بھاگ گئے ۔ مصطفی وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کچھ بولتی مصطفیٰ کا زوردار تھپڑ نے اس کی بولتی بند کر دی۔ ایک لفظ نہیں میں نے منع کیا تھا وہاں سےنکلنے سے ۔تو کیوں باہر نکلی میں نے کہا تھا نہ میں فون کروں گا ۔ کسی نے مجھے آکر بتایا تھا کہ آپ مجھے لینے آئے ہیں ۔اس لئے میں باہر آئی تھی ۔وہاں پر ایک بچی نے کہا کہ آپ پارکنگ کی دوسری سائیڈ پر ہیں اس لئے گئی تھی مجھے کوئی شوق نہیں ہے وہاں جانے کا ۔دعا اس سے زیادہ غصے سے بولی۔ اور آپ نے مجھ پر ہاتھ کیوں اٹھایا اسے گربان سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر پوچھا ۔کیا لگتا ہے آپ کو اگر میں نے آپ کی بات مان لی تو آپ کی غلام بن گئی آپ جو چاہیے میرے ساتھ سلوک کر سکتے ہیں ۔ سوچیے گا بھی مت اگر میں یہاں پہ پہنچی ہو تو اس میں بھی غلطی آپ کی ہے اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو میں ساری زندگی آپ کو معاف نہ کرتی ۔دعا کو یقیناً اپنی جان بہت پیاری تھی اس لیے روتے ہوئے بولی ۔ آپ نے مجھے ڈرا رکھا تھا ایک بار کہوں تو باہر آجانا ورنہ میں تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا ۔اپنی سہیلیوں کے سامنے تماشہ نہیں بنا سکتی تھی روتی ہوئی اور غصہ کرتی سیدھی مصطفی کے دل میں اتر رہی تھی ۔ مصطفیٰ نے اسے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا ۔ دعایہ میری پہلی اور آخری غلطی ہے ۔ میں تمہاری حفاظت نہیں کر سکا ۔اب میں تمہارے معاملے میں کوئی رسک نہیں لوں گا ۔کل بابا آجائیں گے ۔سب کچھ ٹھیک کردوں گا ۔ دعا نے اسے دھکا مار کر خود کو اس کے حصار سے الگ کیا ۔ دعا کو پہلی بار کسی مرد نے اس طرح چھوا تھا ۔ کوئی ضرورت نہیں ہے میرے لیے کچھ بھی کرنے کی اور آئندہ اس طرح سے میرے قریب آنے کی کوشش مت کیجئے گا ۔ دعا کو مصطفیٰ کا اس طرح سے چھونا عجیب ضرور لگا تھا لیکن برا نہیں نہ جانے کون سے احساس کے تحت اسے مصطفی سے شرم آنے لگی۔ مجھے گھر جانا ہے ۔ بس اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی اور وہ اس کے پیچھے چل دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا نے گھر آتے ہی اعلانیہ طور پر سب کو بتایا کہ مصطفیٰ نے ا سے تھپڑ مارا ہے ۔ لیکن نہ تو ماما نے کوئی اہمیت دی اور نہ ہی اس کے پیارے بابا نے ۔ضرور تم نے ہی کوئی غلطی کی ہو گی مصطفی اتنا سمجھ دار بچہ ہے وہ کبھی اس طرح کی حرکت نہیں کرے گا ۔۔ بابا آپ کو اپنی بیٹی پہ یقین نہیں ہے دعا کو دکھ ہوا ۔۔ دیکھو بیٹا مصطفی کوئی تمہارے طرح بچہ نہیں ہے جو ایسی حرکتیں کرے گا ضرور تم ہی نے ایسا کچھ کیا ہوگا جس کی وجہ سے اسے ہاتھ اٹھانا پڑا ۔۔ اور ویسے بھی بہتر ہوگا کیا اب تم بچنا چھوڑ دو چھوٹی بچی نہیں رہی ہو تم ۔ اور اوپر سے تمہارے تایاابو چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کا گھربستا ہوا دیکھیں ۔ اس لئے ہم تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو بہتر ہو گا کہ تم اپنی بچکانہ حرکتیں چھوڑو اور اپنی زندگی کو سنجیدگی سے لو ۔ آج تو بابا نے بھی اس کی ایک نہ سنی اور وہ بھی صرف اور صرف مصطفی کی وجہ سے ۔۔ وہ پہلے ہی اسے برا لگ رہا تھا اور اب تھپڑ کی وجہ سے مزید چڑ ہونے لگی تھی ۔ ماما بابا کی بے رخی پر وہ کمرے میں آ کر بہت روئی اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ آج کے بعد کبھی مصطفیٰ کی شکل نہیں دیکھی گئی اور اگر غلطی سے شکل نظر آگئی تو پہچانے گی نہیں اور اگر مجبوراً پہچاننا بھی پر گیا تو پہلے دن جتنی اہمیت دینے کی غلطی نہیں کرے گی یہ اسی دن سے اس کے سر پر چڑھا ہوا ہے ایسادعا کو لگ رہا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح سارے گھر کو اچھے طریقے سے صاف کیا گیا گیسٹ روم بھی کھلوایا گیا یقیناً تایاابو آج آنے والے تھے اسی لیے صبح صبح مصطفی کی سڑوشکل دیکھنے کو نہیں ملی کیونکہ وہ تایا ابو کو لینے گیا ہوا تھا ۔ وہ تایا ابو سے پہلی بار ملنے جا رہی تھی جس کی وجہ سے بہت ایکسائٹڈ تھی ۔یہاں تک کہ اس نے اپنی پسند کی ڈش بھی تایاابو کے لئے بنائی ۔ بابا اور ماما اس کے ایکسائٹمنٹ دیکھ کر بہت خوش تھے انہیں نہیں لگا تھا کہ اتنے سالوں کے بعد وہ اپنے تایا ابو سے مل کر خوش ہو گئی کیونکہ اس کے سامنے کبھی ان لوگوں کا ذکر تک نہ کیا گیا ۔ جبکہ دعا تو فون پر اپنے تایا ابو کو اپنے بیسٹ فرینڈ بھی بنا چکی تھی اور مصطفی کی شکایتیں بھی لگاتی تھی اس وقت وہ ان کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کیونکہ اس نے انہیں رات والے تھپڑ کے بارے میں بھی بتانا تھا اور کچھ ہو نہ ہو وہ مصطفی کے بابا تھے تو یقینا ایک عدد تھپڑ تو اس کے لیے مار ہی دیں گے اس کے منہ پر دعا نے مکمل پلاننگ کرتے ہوئے سوچا ۔ پھر تایا ابو کا کمرہ صاف کرنے چلی گئی کمرے کی ایک ایک چیز کو رگڑ رگڑ کر چمکایا تاکہ تایا ابو کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تایا ابو آئیں تو وہ ان سے اس طرح سے ملی جیسے برسوں سے جانتی ہو۔ اور پھر انہیں زبردستی آرام کے لئے اٹھا کر کمرے میں لے گئی ۔ مصطفی جب دوا دینے پیچھے آیا تو اس نے مصطفیٰ کے ہاتھ سے دوائیاں اس طرح سے چھینی جیسے وہ مصطفی کے نہیں بلکہ دعا کی بابا ہوں ویسے بھی مصطفی جس دن سے یہاں آیا تھا اس کے ماما بابا اس کے کم اور مصطفی کے زیادہ لگ رہے تھے دعا نے اس بات کا بھی بدلہ لینا تھا۔ رات کو بھی بہت دیر سے تایا ابو کے پاس سے اٹھ کر گئی اور انہیں وقت پر کھانا اور دوا دی ۔ اور انکے پرہیز کا بھی مکمل خیال رکھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی رات کو وہ بابا کے کمرے سے نکلی تو مصطفیٰ کو اپنے باپ کو دیکھنا نصیب ہوا ۔ کیونکہ دعانے کمرہ اندر سے لاک کر رکھا تھا تاکہ انہیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے ۔ کرلی میٹنگ اپنی لاڈلی سے ایک بار بیٹے کا خیال نہیں آیا مصطفیٰ نے آتے ہی شکایت کی ۔ بارہ تیرہ سال بعد اس کی شکل دیکھنا نصیب ہوئی ہے ۔اور تمہاری سڑی ہوئی شکل تو میں روز دیکھتا ہوں ۔بابا نے مزاحیہ انداز میں کہا جس پر مصطفی بھی مسکرایا ۔ خیر کہ کیا رہی تھی آپ کی لاڈلی ۔ کہنا کیا ہے بس میرا خیال رکھ رہی تھی بابا نے کوئی بھی راز فاش نہیں کیا ۔ اسے کہنا کہ میرا بھی خیال رکھیے اخرکار آپ کا بیٹا ہوں میں ۔مصطفی نے شرارت سے کہا ۔ ہاں تو خیال رکھنے آئی تھی نہ جس دن تم یہاں آئے تھے تم نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا ۔ بابا قسم سے وہ کیک لے کے آئی تھی اور آپ جانتے ہیں مجھے کیک سے کتنی نفرت ہے ۔پھر محترمہ آدھی رات کو میرے لئے چائے بنا کر لے آئی ۔جبکہ ڈائننگ ٹیبل پر پہلے ہی اعلان کر چکا تھا کہ میں رات کو چائے پیتا ہی نہیں ہوں ۔ اور اوپر سے مجھے کیس کی اتنی ٹینشن تھی کہ بار بار وہ کمرے میں آکر مجھے ڈسٹرب کر رہی تھی ۔ بس اسی لئے کہہ دیا کہ اس طرح سےمیرے کمرے میں نہ آئے ۔ اور ویسے بھی بابا آپ تو سب جانتے ہیں 12سال سے کتنی مشکل سے رہا ہوں اس کے بغیر ۔ اور اس محترمہ کو یاد تک نہیں ۔مصطفی نے اپنی صفائی پیش کرتے کرتے اس کی بھی شکایت لگائی ۔ اور بابا قسم سے بے وقوف تو اتنی ہے کہ انتہا نہیں ۔اس کی باتیں سنتے سنتے بابا مسکرانے لگے ۔ خیر اب آپ وہ کریں جس کے لئے آپ کو یہاں بلایا ہے مصطفی اپنے مطلب پر آیا ۔ تم نے مجھے بلایا ہے ۔۔۔؟میں تو یہ اپنے بھائی بھابھی اور بیٹی سے ملنے آیا ۔ پہلی بات آپ کو یہاں میں نے بلایا ہے۔۔ دوسری بات بھائی بھابھی سے آپ کی ملاقات ہوچکی ہے۔۔۔ اور تیسری بات وہ آپ کی بیٹی نہیں بہو ہے یہ یاد رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشتے کی ٹیبل پر دعا نےمصطفی کو اپنے حسن سے چاروں شانے چت کردیا۔۔ دعا اپنی سہیلی سعدیہ کی بہن کی شادی میں جارہی تھی جہاں آج بارات آنی تھی مصطفی تو کب سے اپنے بابا کو اشارہ کر رہا تھا کہ ابھی بات کر لیں۔ لیکن بابا نے اسے گھورا گویا کہا ہوصبر سے کام لو ۔ صبر ۔اور زیر لب پر برائے بھی ۔ بارہ سال سے صبر ہی تو کر رہا ہوں۔۔ مصطفیٰ نے بے باکی دکھاتے ہوئے کہا ۔ مصطفی بیٹا تم نے کچھ کہا ۔چاچی کو لگا اسے کچھ چاہیے اس لیے کہنے لگی ۔ ہاں چاچی میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں دعا کو چھوڑ آتا ہوں تب تک بابا کو بھی آپ دونوں سے ضروری بات کرنی ہے ۔ مصطفیٰ نے بابا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ بابا نے حیرانگی سے مصطفی کو دیکھا کیونکہ گھر سے نکلنے سے پہلے مصطفیٰ نے کہا تھا جب تک دعا کی پڑھائی ختم نہیں ہو جاتی تب تک شادی کی بات نہ کرے ۔ کیونکہ بابا چاہتے تھے مصطفی کی جلدی سے جلدی شادی ہو جائے ۔اس وقت مصطفیٰ نے انہیں صبر کرنے کو کہا تھا اور شاید اسی صبر کا بدلہ اب وہ مصطفی سے لے رہے تھے ۔ تایا ابو مجھے ان کے ساتھ نہیں جانا ۔ ان کی سوچوں کو دعا کی آواز میں توڑہ لیکن کیوں بیٹا ۔ویسے تو دعا رات کو ہی ان کی اگلی پچھلی ساری وجوہات بتا چکی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے سب کے سامنے پوچھنا ضروری سمجھا ۔ مجھے یہ اچھے نہیں لگتے ۔یہ ہٹلر ہیں سڑو ہیں ۔اکڑو ہیں اور ہر بات پر حکم چلاتے ہیں ۔ دعا نے تایاابو کا ساتھ پا کر سب ایک ہیں سانس نے کہہ ڈالا ۔ اور اس کی بات پر مصطفیٰ کا دل چاہا کہ اسکا دل چاہا اس کا منہ سوئی سے سی دے۔ کیا میری بیٹی جو کہہ رہی ہے وہ صحیح ہے مصطفی ۔۔؟بابا نے پوچھا کیونکہ یہ دعا اور بابا کے رات کی پلاننگ تھی کے اس کے بیسٹ فرینڈ تایاابو سب کے سامنے مصطفی کو ڈانٹے گے ۔ اس کا بدلہ پورا ہونے والا تھا جس کے لیے وہ بہت خوش تھی ۔ بابا اب تک میں نے اس کے ساتھ جو بھی کیا ہے وہ اس کی غلطیوں کا نتیجہ ہے ایسی بے وقوفانہ حرکت کرتی ہے اور اب مجھ سے نرمی کی امید رکھتی ہے ۔مصطفی نے ایک سخت نظر سے دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا ۔ جی بھائی صاحب مصطفیٰ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ۔ دعا میں بہت بچپنا ہے مگر فکر نہ کریں شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گی ۔ دعآ جو دکھ سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جو اس کا ساتھ دینے کی بجائے مصطفی کا ساتھ دے رہی تھی پھر یہ سوچنے لگی اچانک اس میں شادی کی بات کہاں سے آگئی ۔۔۔ تم ٹھیک کہ رہی ہوہاجرہ میں سمجھ سکتا ہوں لیکن مصطفی کو بھی اسے اس طرح سے نہیں ڈانٹنا چاہیے اور میں نے تو سنا ہے کہ مصطفی نے دعا پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے بابا صاحب سخت لہجے میں گویا ہوتے ہوئے دعا کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔ اب تم دعا کو اس کی سہیلی کی شادی پر چھوڑ کے آؤ گے جب تک تم دونوں میرے کمرے میں آؤ مجھے تم دونوں سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔ بابا کہتے ہوئے اٹھے ایک بات تم سن لو خبردار جو تم نے دعا سے ذرا بھی سختی سے بات کی ۔جاتے جاتے وہ مصطفی کو ایک بار پھر سے سخت لہجے میں بولے ۔ جبکہ دعا کر دل چاہا کہ اس سپورٹ پر تایا ابو کا گال چو م لے ۔ لیکن اس طرح سے مصطفی کو اس کی پلاننگ کے بارے میں پتہ چل جانا تھا ۔ اس لیے اس نے یہ کام بعد پر چھوڑ دیا وہ چلی تو مصطفیٰ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا اسے بھی یہاں سے نکلنے کی جلدی تھی۔ کیونکہ اس کو پتہ تھا کہ جب تک یہاں سے نہیں جائے گا بابا اس کے مطلب کی بات کبھی نہیں کریں گے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی صاحب ہم تو کب سے منتظر تھے کہ آپ کب اپنی امانت کو لے کر جائے ۔ ہاجرہ خوش ہوتے ہوئے بولی تو ٹھیک ہے اب دیر نہیں کرتے تم لوگ جانتے ہو ۔کہ اب میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے میں نہیں جانتا میری سانسیں کتنی دیر اور چل سکتی ہیں ۔ میں بس اپنے بچوں کو ہنستا بستا دیکھنا چاہتا ہوں ۔ وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے بھائی صاحب لیکن دعا ابھی پڑھ رہی ہے ۔سلطان صاحب نے وجہ پیش کی ۔آخر بیٹی کے باپ تھے اتنی جلدی اپنی بیٹی کو رخصت نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کی نظروں میں آج بھی ان کی بیٹی بچی ہی تھی ۔ وہ ابھی پڑناچاہتی ہے بھائی صاحب تو میرا مصطفی کون سا کاکا ہے جو اس کی کتابیں پھاڑ دے گا ۔ انہوں نے کچھ ہی دن پہلے فیس بک پر پڑھا لطیفہ بولا جس پر وہ دونوں ہستی دیے۔ احسان عالم بہت چھوٹی ہی عمر میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالے لگے تھے ۔بہت کم عمر میں نے پتہ چل گیا کہ ان کا خاندان دشمنوں میں گیھرا ہوا ہے ۔ انہیں دشمنوں کو نبھاتے اپنے خاندان کو بچاتے ان کی زندگی کب آخری مرحلے پر آگئی وہ خود بھی سمجھ نہ پائے ۔ لیکن اب وہ اپنی زندگی کو خوب انجوائے کر رہے تھے ۔ اسی لیے وہ اپنی ساری ذمہ داریاں مصطفیٰ کے کندھوں پر رکھ چکے تھے ۔جبکہ وہ خاندانی دشمنی جس کے لیے وہ اتنے سال اپنے بھائی سے الگ رہے تین سال پہلے مصطفی نے ان دشمنیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا وہ لوگ کافی غیر قانونی کاموں میں شامل تھے ۔جس میں قتل غیرت زنا اور سمگلنگ شامل تھیی مصطفی نے ان پر ایسے چارجز لگائے کہ وہ کبھی جیل سے نہ نکل پائے ۔ یہ سب کچھ اس نے اپنے باپ کو خوش کرنے کے لیے گیا تھا تاکہ وہ ایک سکون کی زندگی گزار سکے ۔لیکن سکون بھی زیادہ دیر ان کا نصیب نہ بن سکا اور انہیں کینسر جیسی بیماری لاحق ہو گئی